ماں خدا کی نعمت ہے اور اس کے پیار کا انداز سب سے الگ اور نرالا ہوتا ہے۔ بچپن میںایک بار بادو باراں کا سخت طوفان تھا اور جب اس میں بجلی شدت کے ساتھ کڑکی تو میں خوفزدہ ہو گیا۔ ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میری ماںنے میرے اوپر کمبل ڈالا اور مجھے گود میں بٹھا لیا، تو محسوس ہوا گویا میں امان میں آگیا ہوں۔
میں نے کہا، اماں! اتنی بارش کیوںہو رہی ہے؟ اس نے کہا، بیٹا! پودے پیاسے ہیں۔ اللہ نے انہیں پانی پلانا ہے اور اسی بندوبست کے تحت بارش ہو رہی ہے۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے! پانی تو پلانا ہے، لیکن یہ بجلی کیوں بار بار چمکتی ہے؟ یہ اتنا کیوںکڑکتی ہے؟ وہ کہنے لگیں، روشنی کر کے پودوں کو پانی پلایا جائے گا۔ اندھیرے میں تو کسی کے منہ میں، تو کسی کے ناک میں پانی چلا جائے گا۔ اس لئے بجلی کی کڑک چمک ضروری ہے۔
میں ماں کے سینے کے ساتھ لگ کر سو گیا۔ پھر مجھے پتا نہیں چلا کہ بجلی کس قدر چمکتی رہی، یا نہیں۔
ٹھیک چوالیس برس بعد جب میرا پوتا جو بڑا اچھا، بڑا ذہین لڑکا اور خیر و شر کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے، وہ جاگنگ کر کے گھر میں واپس آتا ہے، تو اس کے جوگر، جو کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں، وہ ان کے ساتھ اندر گھس آتا ہے اور وہ ویسے ہی خراب جوگروں کے ساتھ چائے بھی پیتا ہے اور سارا قالین کیچڑ سے بھر دیتا ہے۔ میں اب آپ کے سامنے اس بات کا اعتراف کرنے لگا ہوں کہ میں اسے برداشت نہیں کرتا کہ وہ خراب، کیچڑ سے بھرے جوگرز کے ساتھ قالین پر چڑھے۔ میں نے اپنے پوتے کو شدت کے ساتھ ڈانٹا اور جھڑکا کہ تم پڑھے لکھے لڑکے ہو، تمھیں شرم آنی چاہئے کہ یہ قالین ہے، برآمدہ ہے اور تم اسے کیچڑ سے بھر دیتے ہوں۔
ٹھیک چوالیس برس بعد جب میرا پوتا جو بڑا اچھا، بڑا ذہین لڑکا اور خیر و شر کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے، وہ جاگنگ کر کے گھر میں واپس آتا ہے، تو اس کے جوگر، جو کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں، وہ ان کے ساتھ اندر گھس آتا ہے اور وہ ویسے ہی خراب جوگروں کے ساتھ چائے بھی پیتا ہے اور سارا قالین کیچڑ سے بھر دیتا ہے۔ میں اب آپ کے سامنے اس بات کا اعتراف کرنے لگا ہوں کہ میں اسے برداشت نہیں کرتا کہ وہ خراب، کیچڑ سے بھرے جوگرز کے ساتھ قالین پر چڑھے۔ میں نے اپنے پوتے کو شدت کے ساتھ ڈانٹا اور جھڑکا کہ تم پڑھے لکھے لڑکے ہو، تمھیں شرم آنی چاہئے کہ یہ قالین ہے، برآمدہ ہے اور تم اسے کیچڑ سے بھر دیتے ہوں۔
میں نے کہا کہ تمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے۔ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو، چنانچہ میںاس پر کمنٹس کرتا رہا۔ ٹھیک ہے مجھے ایک لحاظ سے حق تو تھا، لیکن جب یہ واقعہ گزر گیا تو میںنے ایک چھوٹے سے عام سے رسالے میںاقوالٍ زریں وغیرہ میں ایک قول پڑھا کہ“
جو شخص ہمیشہ نکتہ چینی کے موڈ میںرہتا ہے اور دوسروں کے نقص نکالتا رہتا ہے، وہ اپنے آپ میں تبدیلی کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔“
انسان کو خود یہ سوچنا چاہئے کہ جی مجھ میںفلاں تبدیلی آنی چاہئے۔ جی میںسیگرٹ پیتا ہوں، اسے چھوڑنا چاہتا ہوں، یا میں صبح نہیں اٹھ سکتا۔ میںاپنے آپ کو اس حوالے سے تبدیل کر لوں۔ ایک نکتہ چیں میںکبھی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس کی ذات کی جو بیٹری ہے، وہ کمزور ہونے لگتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب بیڑی کے سیل کمزور ہو جائیں، تو ایک بیٹری کا بلب ذرا سا جلتا ہے، پھر بجھ جاتا ہے۔ اسی طرح کی کیفیت ایک نکتہ چیںکی ہوتی ہے۔
ابھی میں اس کا کوئی ازالہ نہیںکر سکا تھا کہ اگلے دن میںنے دیکھا میرے پوتےکی ماں (میری بہو) بازار سے تار سے بنا ہوا میٹ لے آئی اور اس کے ساتھ ناریل کے بالوں والا ڈور میٹ بھی لائی، تاکہ اس کے ساتھ پیر گٍھس کے جائے اور اندر کیچڑ نہ جانے پائے۔ سو، یہ فرق تھا مجھ میں اور اس ماںمیں۔ میںنکتہ چینی کرتا رہا اور اس نے حل تلاش کر لیا۔
ہم شہر کے صفائی پسند لوگ جو مکھی کو گوارا نہیں کرتے۔ ایک بار میرے دفتر میں میرے بابا جی(سائیں جی) تشریف لائے، تو اس وقت میرے ہاتھ میںمکھیاں مارنے والا فلیپ تھا۔ مجھے اس وقت مکھی بہت تنگ کر رہی تھی۔ میںمکھی مارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس لئے مجھے بابا جی کے آنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ اچانک ان کی آواز سنائی دی۔ وہ کہنے لگے، یہ اللہ نے آپ کے ذوقٍ کشتن کے لئے پیدا کی ہے۔ میںنے کہا، جی یہ مکھی گند پھیلاتی ہے، اس لئے مار رہا تھا۔ کہنے لگے، یہ انسان کی سب سے بڑی محسن ہے اور تم اسے مار رہے ہو۔ میں نے کہا، جی یہ مکھی کیسے محسن ہے؟ کہنے لگے، یہ بغیر کوئی کرایہ لئے، بغیر کوئی ٹیکس لئے انسان کو یہ بتانے آتی ہے کہ یہاںگند ہے۔ اس کو صاف کر لو تو میں چلی جاؤں گی اور آپ اسے مار رہے ہیں۔ آپ پہلے جگہ کی صفائی کر کے دیکھیں، یہ خود بخود چلی جائے گی۔ سو، وہاں باباجی کی کہی ہوئی وہ بات میرے ذہن میںلوٹ کر آئی اور میںنے سوچا کہ مجھے اس کمرے میںکوئی فریش چیزیں پھول یا سپرے وغیرہ رکھنی چاہیں اور یہاںکی صفائی پر دھیان دینا چاہئے۔ وہ فرش جیسا بھی تھا، اس کو گیلا کر کے میں نے جھاڑو لے کر خود خوب اچھی طرح سے صاف کیا۔ آپ یقین کریں پھر مجھے مکھیوں نے تنگ نہیں کیا۔
Excerpt from ZAVIA written by Ashfaq Ahmad.
Different colours are use to make it easy to read.
ReplyDelete