Wednesday 14 December 2016

State Atrocities & Censorship


ریاستی جبر



خوف کے سائے میں زندگی بسر کرنا اک تکلیف دہ احساس ہے، اور خاص طور پر وہ خوف جس نے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہو اور جس کی وجہ سے افراد اظہارِ رائے سے محروم ہوں. ایسے خوف میں ہر سرسراہٹ، ہر آہٹ کسی انجان تکلیف کا پیامبر بن جاتی ہے. اس خوف میں جینے والے افراد ہی ساکت ہوا کے احساس کو سمجھ پاتے ہیں. یہ خوف کن سے ہے، شاید مقبرے بنانے والوں سے، یہ مقبرے بنانے والے کون ہیں؟ اربابِ اختیار ! اربابِ اختیار جب کتبہ فروش بن جائیں تو خوف کے بادل کیونکر چٹھیں گے. دل میں جب خواہش ہو کہ  آنکھ کھلے تو برسوں سے ساکت ہوا کو محسوس کر سکیں اور آنکھ کھلے تو خوف کے بت اور اس کے حواریوں کا وجود نہ ہو،  تو بغاوت کا پہلا بیج پھوٹ آتا ہے.  اس خوف کے احساس کا مناسب سدباب نہ ہونا،  بغاوت کے بیج سے پھوٹی کونپل کو تناور درخت بننے میں مددگار ثابت ہوتا ہے.



معاشرے میں بہت سے ایسے افراد ہیں جو اسی خوف میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور یہ خوف ان کی ذہنی اور نفسیاتی نشوونما میں منفی کردار ادا کرتا ہے.  اہل اقتدار جو اس خوف کا باعث ہیں، ان سے اس کے سدباب کے حوالے سے کسی اقدام کی توقع نہیں کی جا سکتی. ان افراد کو اپنے رعب تلے رکھنے کے لیے ان کو عموماً بنیادی ضروریات زندگی سے محروم یا ان سہولیات کا حصول ان کے لیے مشکل بنا دیا جاتا ہے. گو کہ حکومت وقت ایسے کسی بھی اقدام کا اقرار نہیں کرتی،  مگر اگر کسی خاص علاقے کے لوگوں کو بنیادی سہولیات اور حقوق  کی فراہمی کے معاملے میں حکومتی رویہ غیر سنجیدہ ہو،  یا صرف کاغذوں کی حد تک عوامی فلاح و بہبود کے کام ہوں تو یقیناً وہ علاقہ اور علاقہ مکین پسماندگی کا شکار رہیں گے. وسائل کی تقسیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو بروئے کار لا کر حکومت ان لوگوں کا استحصال کر سکتی ہے جو حکومتی نظریہ سے متفق نہ ہوں.

افراد میں یہ احساس کے اہل اقتدار حقیقتاً مداوا نہیں بلکہ غاصب ہیں،  ان کو اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے پر مجبور کرتا ہے.  یہ شور غاصب کو ایسا ناگوار گزرتا ہے کہ ان افراد کو نہ صرف غداری کی تہمت کا بوجھ اٹھانا پڑا بلکہ ان کے اہل خانہ پر بھی زندگی تنگ کر دی جاتی. حاکم کو اس صورتحال میں یہ نہیں بھولنا چاہیے کے اگر تکلیف اور پریشانی مشترک ہو جائے تو یہ افراد کو ایک مضبوط رشتہ میں باندھ دیتے ہیں.

ایسے بہت سے غدار زندگی کی بازی ہار گئے اور بہت سے کوئی نشانی چھوڑے ایسے غائب ہوئے کے پیچھے رہ جانے والے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے اور اپنے پیاروں کی زندگی کا سوال کرتے رہے. اس امید پر جیتے رہتے ہیں کہ زندہ نہیں تو موت کی خبر ہی دے دو،  کوئی آخری نشانی ہی دے دو،  اس دکھ میں کڑھتے ہیں کہ ہم سے اچھا تو قابیل تھا کہ جس نے بھائی کو قتل کیا،  گناہ کیا، مگر اس کے پاس بھائی کی لاش تو تھی،  یہاں تو بہت سوں کو لاش بھی نصیب نہ ہوئی اور بہت سے ایسے ہیں کہ جو اپنے پیارے کے دیدار کے بعد اس کے چہرے پر موجود کرب کو بھلائے نہ بھلا پائے.

یہ جو اپنے پیاروں کی تلاش میں سوالات کرتے ہیں، ان کے سوالات کا جواب وہ کیوں دیں کہ ان کا مفاد اسی میں ہے کہ طاقت کے بل پر حکومت کی جائے. یہ طاقتور تعصب کی عینک اتاریں،  اور یہ مت بھولیں کے جہاں خطا ہے وہاں سچ اور خلوص بھی ہے.  ایسا نہ ہو کہ اپنا دامن بچا کر چلنے والوں کے معاملات میں ان سے کوئی خطا ہو جائے.
  

اہل اقتدار جو حکومت قائم رکھنے کے لیے ظلم کی راہ اختیار کرتے ہیں اور دشمنی اور بدلہ لینے کی آرزو میں حد سے تجاوز کر جاتے ہیں،  وہ خود ہی اپنے لیے ایک ایسی راہ متعین کر لیتے ہیں جو دیکھنے والوں کو ان کے زوال کے آغاز سے آگاہی دے دیتا ہے. مظلوم کو بھی یقین رکھنا چاہیے کہ بدبختی سدا ساتھ نہیں رہتی.  وقت کے ساتھ اس کا اثر زائل ہو جاتا ہے. اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ انسان جتنی بھی کوشش کر لے اس کے لیے بہترین پناہ گاہ خدا کی زات ہے، وہی چارہ گر ہے اور منصف اعظم ہے.


 First Published by DunyaNews

Strangling Corona

In the current scenario, when whole world is screaming to avoid social gathering, we in Pakistan are adamant to go against it and are on th...